اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک کو کئی روز کیلئے لاک کیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنان کسی نہ کسی طرح وفاقی دارلحکومت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے متضاد دعوے سامنے آئے، اب سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ۔
روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ’پختونخوامیں لوگوں کا اکٹھ ہوا مارچ چلنا شروع ہوا تو اہل اقتدار کے فوراً کان کھڑے ہوگئے ،دو چیزیں انکی نظر میں بہت خطرناک تھیں ایک تو 35 ہزار افراد کا پرجوش ہجوم جس میں زیادہ تر نوجوان تھے اور دوسری طرف بشریٰ بی بی کی جلوس میں موجودگی، بشریٰ بی بی کا اہل اقتدار کے پاس نہ کنٹرول تھا اور نہ اس کاکوئی اندازہ تھا کہ وہ کیا کرڈالے گی اور اس کے فیصلے لڑائی کی طرف بڑھائیں گے یا پھر آخر میں صلح کا راستہ نکلے گا؟
ڈی چوک آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ زیر بحث موضوع حکمت عملی نہیں بلکہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے، انسانی جان تو ایک بھی جائے تو ناقابل تلافی نقصان ہے مگر پی ٹی آئی اور اس کے حامی یوٹیوبر ز نے تواتر کے ساتھ اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ ان کے دعوئوں پر یقین کرنا مشکل ہے۔
یہ کام کلثوم نواز کی بیماری کو جھوٹا اور جعلی ثابت کرنے سے شروع ہوا اور اس کا آخری مرحلہ ایک نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے جھوٹے واقعہ کی تشہیر سے ہوا، بار بار کے جھوٹ، ان کے سچ کو بھی دھندلانا شروع ہو گئے ہیں جب تک لاشیں، جنازے اور ثبوت سامنے نہیں لائے جاتے سب دعوے کھوکھلے اور ماضی کی جھوٹی خبروں کا اعادہ ثابت ہونگے۔
جتنا بڑا ہجوم تھا جتنا بڑا واقعہ تھا اس میں جانی نقصان تو ہونا تھا۔ یہ عاجز صحافی تو بار بار متنبہ کرتا رہا کہ لانگ مارچ میں لازماً خون بہے گا وہ بہہ کر رہا، اب بھی ضرور کچھ نہ کچھ لوگ زندگی ہارے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ قانون نافد کرنے والے اداروں کے 6لوگ جاں بحق ہوئے اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔
لاشیں تو ابھی 6ملی ہیں جن کو جاننے کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ میرا شروع سے ہی اندازہ تھا کہ جھوٹے خود ہی جھوٹ کےجال میں پھنس جاتے ہیں انہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہے تو اس کمیشن میں لاشیں یا ثبوت پیش کریں‘۔