ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر افراط اور تفریط کا شکار ہے۔ہم یا تو کسی تو اس حد تک پسند کرتے ہیں کہ اس کے ہر غلط کام کو اس کی ادا و ناز قرار دیتے ہیں یا ہم کسی کو اس حد تک ناپسند کرتے ہیں کہ اس کے اچھے سے اچھے کام کو بھی دنیا کا سب سے بڑا غلط کام قرار دے دیتے ہیں۔
ہم یا تو افراط کا شکار رہتے ہیں یا پھر تفریط کا۔۔۔ لیکن مجال ہے کہ ہم کسی کو اعتدال کی نظر سے بھی دیکھنے کی کوشش کریں۔
افراط حد سے زیادہ بڑھ جانے کو کہتے ہیں۔تفریط حد سے زیادہ گر جانے کو کہتے ہیں جبکہ اعتدال حقیقت پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں سب سے زیادہ اعتدال سے دشمنی مول لی جاتی ہے۔ہم نا تو خود اس کمبخت حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نا ہی ہمیں اس پر چلنے والا کوئی شخص اچھا لگتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والا ہر باسی یا تو نونی ہو یا پھر جنونی۔ اس کے درمیان کی حقیقت پسندی ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ قاضی فائز عیسی کو بوقت رخصت ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ نونی ان کو تاریخ انسان کا سب سے معتبر اور بڑا قاضی ثابت کرنے پر مصر ہیں جبکہ جنونی انہیں دنیا کا بونا ترین قاضی منوانے تر تلے ہیں۔ حقیقت کی نظر میں یہ دونوں طبقات افراط اور تفریط کا شکار ہیں۔ قاضی فائز عیسی نا تو اتنے اچھے اور بڑے چیف جسٹس تھے کہ وہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں اور نا ہی وہ اتنے برے ۔۔۔اورنہ ہی ماضی کے قاضیوں کی طرح اپنی حد سے حد درجہ تجاوز کرنے والے چیف جسٹس ثابت ہوئے۔ ایک بات مگر طے ہے کہ قاضی فائز عیسی بالکل غیر معمولی نوعیت کے چیف جسٹس تھے۔ ان کے دور تنازعات سے بھرپور دور تھا اور اسی وجہ سے تقریبا ہر روز ہی کوئی نا کوئی "نیا کٹا" کھلا رہا۔
قاضی فائز عیسی ایک بہترین خاندانی پس منظر رکھتے ہیں۔ انکے دادا قاضی جلال الدین قیام پاکستان سے پہلے ریاست قلات کے وزیراعظم تھے۔انکے والد قاضی عیسی قائداعظم کے انتہائی قریبی اور بداعتماد ساتھیوں میں شامل تھے جو آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے بانی تھے۔انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور قیام پاکستان کے لیے سالانہ 40 ہزار میل سفر کیا کرتے تھے۔ 1942 میں انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کا عظیم الشان جلسہ کروایا تو اس میں لیاقت علی خان انکے پاس گئے۔1943 میں قائداعظم بلوچستان گئے تو دو ماہ انکے گھر قیام کیا۔
1940 میں جس قرارداد پاکستان پیش ہوئی تو لاہور کے تاریخی جلسے میں انہوں نے بلوچستان کی نمائندگی کی اور جب وہ تقریر کررہے تھے تو انکی تقریر طوالت اختیار کرگئی جس پر لیاقت علی خان نے گھنٹی بجا کر انہیں وقت کی قلت کا احساس دلانا چاہا تو قائداعظم نے لیاقت علی خان کو منع کردیا اور قاضی صاحب کو تقریر جاری رکھنے دی۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔