لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے آج آخری دن ہے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ اختتام پذیر ہو گیاہے جس میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ، اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خطاب کیا ۔
تفصیلات کے مطابق فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ساڑھے دس بجے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز شریک ہیں۔سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہیں۔
الوداعی ریفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا،ریفرنس میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیریئر کے اہم فیصلوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ان کے فیصلوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم فیصلے کیے، 2013 میں محمد سلیم اور حکومت پاکستان کے درمیان مقدمے میں انہوں نے سرکاری حکام کے حکومتی اخراجات پر حج پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ نسرین کیترانی اور حکومت بلوچستان کے درمیان 2012 کے مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اے میں درج معلومات کے بنیادی حق پر زور دیا اور جواب دہندگان کو ہدایت کی کہ وہ صوبے کے تمام اسکولوں کو چلانے کو یقینی بنائیں اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اساتذہ اور اسکول تعلیم فراہم کریں جس کی متعلقہ حکومتی افسران نگرانی کریں۔
انہوں نے کہا کہ 2010 میں صوبے کے دو مقدمات میں چیف جسٹس نے خواتین کی اپنی مرضی کے مطابق شادی کے حق کو برقرار رکھا جبکہ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں پانچ سال تک بطور چیف جسٹس خدمات انجام دینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تقرر عدالت عظمیٰ میں کردیا گیا جہاں انہوں نے ایک دہائی تک خدمات انجام دیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اہم فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہاکہ متعدد مقدمات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جنگلی حیات کے تحفظ پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا جبکہ سپریم کورٹ میں بھی متعدد مقدمات میں وراثت میں خواتین کے حق کا تحفظ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اجتماع اور احتجاج کے حق اور ان معقول پابندیوں پر تفصیلی بحث کی، اہم بات یہ ہے کہ جسٹس عیسیٰ نے نوٹ کیا کہ احتجاج کا حق صرف اس حد تک محدود ہے جس میں آزادانہ نقل و حرکت کے حق سمیت دوسروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن تھے اور محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے واپس آکر بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، ان کے والد بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی والدہ بیگم سعدیہ عیسیٰ سماجی کارکن تھیں، وہ ہسپتالوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرتی تھیں، جو بچوں اور خواتین کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی تھیں۔
ابتدائی زندگی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے ’O‘ اور ’A‘ لیول مکمل کیا، جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول لا سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا۔آپ 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔
3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔
بعد ازاں 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، وہ اس دوران بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تاحیات رکن رہے۔
علاوہ ازیں انہیں مختلف مواقع پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کے لیے بھی طلب کیا جاتا رہا، اس کے علاوہ وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں اور ان کے 2 بچے ہیں۔
انہوں نے 17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کے عہدے کے حلف اٹھایا تھا اور سپریم کورٹ کے 29ویں چیف جسٹس کا اعزاز حاصل کیا تھا۔