سب سے نیا

لنکس

 حنیف رامے عو ام دوست نہیں عوام پرست تھے،سیاست میں سرگرمی کم ہوئی تو فن خطاطی کو اظہار کا ذریعہ بنا لیا، ان کی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے

2024-09-22     HaiPress

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد


قسط:30


محمد حنیف رامے


حنیف رامے صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں ناموری حاصل کی۔ ادب، صحافت، مصوری میں گہرے نقوش چھوڑے۔ سیاست ان کا عشق اور دلچسپی تھی جس پر وہ کچھ نہ کر سکے جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر عوام دوست نہیں عوام پرست تھے۔ عوام کے لیے بہتر مواقع اور حالات بنانے کے لیے انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کا ساتھ بھی دیا جس کی بنیاد انہوں نے ادب اور صحافت میں رکھی۔ وہ ہر اس راستے پر چلے جس کی منزل پر انہیں عوام کی خوشحالی نظر آتی تھی۔ انہوں نے حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں میں اپنا حصہ ڈالا اور اپنا کردار ادا کیا۔ آخری دنوں میں جب ان کی اپنی سیاست میں سرگرمی کم ہوئی تو انہوں نے اپنے پرانے شوق فن خطاطی کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔ ان کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو عام طبقے کا فرد سمجھا۔ بھٹو سے اختلاف کے بعد پیپلزپارٹی چھوڑ دی مگر نیرنگیئے سیاست انہیں پھر پیپلزپارٹی میں لے آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد نہ کر سکے۔ اس سے پہلے انہوں نے ضیاء الحق سے بھی رابطے کیے کہ ان کو زیادہ بھڑکنے نہ دے۔مگر جب رامے اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان قربت زیادہ ہوئی تو اللہ نے جنرل ضیاء کو واپس بلا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی میں واپسی اختیار کی۔


مشہور سیاسی دانشور، نامور صحافی اور مصورانہ خطاطی کے بانی محمد حنیف رامے مرحوم جو پیپلز پارٹی کے لیڈر اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے سے پرانی ملاقات تھی۔ وہ نرم خو سیاست دان تھے اور ان سے مل کر ہمیشہ ایک خوشی کا اظہار ہوتا۔ وہ ہمیشہ پراُمید رہنے و الے سیاست دان تھے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں رہا ہوئے تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بھی ہم ملے ملکی حالات اور سیاسی معاملات پر بات ہوتی…… وہ ملکی حالات دیکھ کر اور جنرل ضیاء الحق کی باتوں اور اشاروں کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے کئی دفعہ کہا بھی اور ہمیں تو اکثر کہتے رہتے تھے کہ اب کئی برسوں تک ملک میں سیاست نہیں ہو سکے گی پھر وہ امریکہ چلے گئے۔ امریکہ جانے کی بہت سی وجوہات تھیں۔ شاید اُن کے لئے پاکستان رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے یا مارشل لاء انتظامیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کے گھریلو حالات اور سیاسی کارکنوں کا دباؤ…… جنرل ضیاء الحق نت نئے تجربات کر رہے تھے۔ وہ اپنے ان تجربات مثلاً اسلامی قوانین کا نفاذ، بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش اور افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد افغان مجاہدین کی سیاست میں مصروف تھے۔ اس لئے وہ سنتے کم اور سوچتے زیادہ تھے۔ اگر جنرل ضیاء الحق حنیف رامے کے سیاسی منصوبہ سے متفق ہو جاتے یا وہ انہیں بھی ساتھ شامل کر لیتے تو نتائج بہت مختلف ہو سکتے تھے مگر شاید جنرل صاحب سے حنیف رامے کی دو تین ملاقاتیں تو ہوئیں مگر کچھ طے نہیں ہوا۔ اس پر رامے امریکہ چلے گئے۔ جہاں جا کر انہوں نے اپنی مصورانہ خطاطی اور مصوری کے علاوہ کافی تحریری کام بھی کیا۔ جس میں ”پنجاب کا مقدمہ“ جیسی کتاب بھی ہے۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق جو ریفرنڈم کرانے کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط اور جارح صدر بن چکے تھے انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ ایم آر ڈی کی حامی جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ مگر جنرل صاحب نے ترمیم شدہ آئین کے مطابق محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا۔ جنہوں نے منتخب ممبران پارلیمنٹ کی خاطر مدارات کی انہیں خوب فنڈز دیئے۔ مراعات دی گئیں مگر اس کے باوجود ایوان میں اکثریت کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جس پر انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی مشاورت سے ایوان میں مسلم لیگ بنائی۔ مسلم لیگ بنی تو مختلف گروپس نے باقی جماعتیں بھی بنا لیں۔ اس عرصہ میں محمد حنیف رامے امریکہ سے واپس آ گئے اور انہوں نے ملک میں مساوات پارٹی کے نام سے سیاست شروع کی۔دیگر ساتھی بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔ لیکن زیادہ پذیرائی میسر نہ آئی تو غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی میں مساوات پارٹی ضم کر دی گئی بعد میں حنیف رامے صاحب بینظیر بھٹو کے اصرار پر دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو کر پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے۔(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap