مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:224
شکار کا چسکا؛
میرا شکار کا پہلا تجربہ سنسنی خیز اور خوشگوار رہا تھا۔ راہ سے بھٹکنے اور شکار کی سنسنی دونوں کو ہی خوب thrilling تھے۔سچ تو یہ ہے کہ شکار کا چسکا لگ گیا تھا۔ ابا جی نے بچپن میں مجھے شکار کی عادت ڈالنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن یہ کام من کو نہ بھایا تھا۔ رات کے شکار نے میرا لہو گرما دیا تھا۔ لاہور آیا تو ابا جی شکار کا سن کر خوش ہوئے اور اس بارے ٹپس بھی دیتے رہے۔باگڑی اکثر شکار پر جاتا تھا۔میں بھی کئی بار ساتھ گیا لیکن میں تبھی جاتا جب میرے بچے لاہور گئے ہوتے تھے۔ ایک روز بھابی(مسز باگڑی) کہنے لگیں؛”باگڑی صاحب! شہزاد بھائی اگر بھابھی کے ہوتے شکار پر جائیں تو تب میں مانوں۔“ کہہ وہ ٹھیک رہی تھیں۔ مسز باگڑی، مسز انصر اور میری بیگم کی کافی دوستی بھی تھی۔
سرائے علم گیر کے رئیس راجہ عامر بہترین شکاری اور باگڑی کے یار تھے۔ایک بار ان کے ساتھ بھی شکار کھیلنے کا موقع ملا۔ یہ خاندانی رئیس تھے اور ان کی بڑی حویلی لب جی ٹی روڈ تھی اور حویلی کے ارد گرد کی ساری جائیداد انہی کی تھی۔ ہم 2 جیپوں میں سوار شکار کو نکل گئے۔ ”ہیڈ جگو“(یہ ہیڈ منگلا ڈیم سے نکالی گئی نہر جو سرائے عالم گیر والی نہر پر تعمیر کیا گیا ہے۔) کے گرد بیلا ہماری شکار گاہ تھی۔اس رات کئی وائلڈ بور ہمارا نشانہ بنے۔ راجہ عامر کے پاس اس کے دادا کی ٹیلی سکوپ والی رائفل تھی اور اس کانشانہ بھی بلا کا تھا۔ ہمیں کافی دور ایک شکار نظر آیا، عامر نے رائفل داغی۔ میں نے پوچھا؛”گولی لگی؟“ کہنے لگا؛”نہ لگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔“ جیپ وہاں پہنچی تو شکار مرا پڑا تھا۔ رائفل کی گولی اس کا بھیجا اڑا گئی تھی۔ میں نے پوچھا؛”زبردست نشانے کی وجہ کیا ہے؟“ کہنے لگا؛”سر! ساری عمر یہی کام کیا ہے۔ بچپن میں نہر پر نہانے جاتے تو بہت سے تربوز ساتھ لے جاتے جن پر نشانہ بازی کی مشق کرتے تھے۔“
اشتہاری۔۔ جیپ خراب؛
نہ جانے کیا سوجھی ایک روز دفتری ٹائم میں ہم افسر باگڑی، انصر، مسعود ملک(یہ رینکر تھے۔ اچھے انسان اور سمجھ دار مجسٹریٹَ) سیماب(یہ بنک آف پنجاب کھاریاں کا منیجر اور لاہور کا رہنے والا تھا۔ اس کی بیگم ڈاکٹر تھیں۔ اس جوڑے کی ہماری بہت دوستی تھی۔ جب عظمیٰ کی والدہ کا انتقال ہوا تو ہم انہی کے گھر تھے۔سیماب بھی کمال شہری بابو تھا۔ پہلے دن مجھے ملنے آیا، گرمیوں کی دوپہر تھی اور بجلی بند۔ میں ہال کمرے میں پارپائی پر لیٹا تھا اور دو دن سے شیو بھی نہیں کی ہوئی تھی۔ کمرے میں کچھ اندھیرا ہی تھا۔ راجہ جاوید، جلیل اصغر اوریونس مرحوم میرے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں میں سوٹڈ بوٹڈ نوجوان دفتر میں داخل ہوا اور پوچھنے لگا؛”مجھے پراجیکٹ منیجر سے ملنا ہے۔ میں نے ہی جواب دیا؛”وہ آج چھٹی پر ہیں آپ کل تشریف لائیے گا۔“ وہ نوجوان یہ کہہ کر چلا گیا ”انہیں بتا دیں کہ بنک آف پنجاب کا منیجر تشریف لائے تھے۔“وہ گیا تو جلیل کہنے لگا؛”سر! کل یہ آپ کو دیکھے گا تو کیا کہے گا کہ اسی نے مجھے جواب دیا تھا۔“ میں نے کہا؛”جلیل اصغر! اسے یاد ہی نہیں رہے گا کہ اس کی کس سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ شہری بابو ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔