تحریر:رانا بلال یوسف
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی سیاہی ابھی مکمل خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ دنیا کی سٹریٹجک بساط پر نئی چالیں خاموشی سےچلی جانے لگیں۔ تبصرے، تجزیئے اور تزویراتی پیش گوئیاں عالمی منظرنامے پر یوں بکھری پڑی تھیں، جیسے بارش کے بعد سڑکوں پر دھند۔ ایسے ہی ایک شام، جب لاہور کی فضاء ہلکی بوندا باندی سے نم اور سڑکیں خیالوں کی مانند چپ چاپ تھیں، میں اپنے استادِ محترم ایڈووکیٹ فہیم شوکت میو سے کیفے میں ملاقات کے لیے پہنچا۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں، جو تاریخ کو صرف پڑھتے نہیں، اُسے پرکھتے بھی ہیں، ان کے اندر بین الاقوامی قانون، عالمی فکر اور جنگی حکمتِ عملیوں کا ایک ایسا امتزاج ہے، جو محض کتابی نہیں، تجرباتی بھی ہے۔ ان کی گفتگو میں دانش کی روشنی اور وقت کی دھڑکن صاف دکھائی اورسنائی دیتی ہے۔
جنگ کی شدت بڑھتی گئی، یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں کا سایہ پوری دنیا پر چھا گیا۔ طاقت اب دھماکے میں نہیں، دھمکی میں تھی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے بعد، امریکہ اور سوویت یونین کی باہمی تباہی کی صلاحیت ہی جنگ سے باز رکھنے کی دیوار بن گئی۔اب طاقت صرف ایٹم بم میں نہیں، اسے دُور تک اور تیز تر پہنچانے والے بین البراعظمی میزائلوں میں بھی تھی وہ ہتھیار جو بٹن دباتے ہی آسمانوں میں سفر کر کے زمین پر قیامت برپا کر سکتے تھے۔ یہی تھا ’’Mutual Assured Destruction‘‘ — یعنی باہمی یقینی تباہی کا وہ خوفناک توازن، جو صرف ہوش اور حکمت سے قائم رکھا جا سکتا تھا۔ طاقت کا مفہوم اب محض تباہی میں نہیں، بلکہ اس تباہی سے بچنے کی دانش میں چھپ گیا تھا۔ اور یوں، خاموشی بھی ایک دھمکی بن گئی۔
لیکن اب دنیا کے پاس نہ شمشیر ہے، نہ توپ بس سکرینیں، سیٹلائٹ اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس ہیں۔استاد نے موبائل پر سائبر حملوں کے سرخ نکتے دکھاتے ہوئے کہا:’’یہ وہ جنگیں ہیں جو شور مچائے بغیر قوموں کو گھیر لیتی ہیں۔‘‘روس یوکرین تنازع ہو یا، ایران اسرائیل کی کشمش، آج لڑائی فائرنگ سے نہیں، فائلوں اور فریم ورک سے شروع ہوتی ہے۔ہدف دشمن کا جسم نہیں، اس کی سوچ اور سچائی کا احساس ہوتا ہے۔’’جو قومیں صرف باڑھوں اور بٹالینوں پر بھروسا کیے بیٹھی ہیں، وہ ڈیجیٹل یلغار کے سامنے ننگی کھڑی ہیں۔‘‘ان کے لہجے میں تنبیہ تھی، جیسے مستقبل کا دروازہ بج رہا ہو۔
طاقت اب میزائل یا مشین گن میں نہیں وہ کوڈ، معلوماتی بارود اور الگورتھمز میں جا چھپی ہے، جہاں ایک کلک، ایک لیک، یا ایک خاموش وائرس پوری ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ہم اُس دور کی دہلیز پر ہیں جہاں جنگ صرف سائبر یا خفیہ معلومات تک محدود نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت، حیاتیاتی ہتھیار اور انفوٹیک کی نئی دنیا نے جنگ کا مفہوم ہی بدل ڈالا ہے۔استادِ محترم نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا:
’’کل کے سپاہی فولاد کے نہیں ہوں گے، بلکہ کوڈ اور کیمیائی جنوم(DNA) میں چھپے ہوں گے۔‘‘ ڈرون حملے بغیر پائلٹ، روبوٹ بغیر تھکن اور وائرس بغیر سرحد کے دشمن پر وار کرتے ہیں۔ڈیٹا وہ خاموش تباہی کا ہتھیارجو کسی شہر کو تباہ کیے بغیر قوم کو گونگا، بہرا اور اندھا کر سکتا ہے۔ جنومک ہتھیار، AI کے فیصلے، اور کلاؤڈ میں چھپے راز یہی نئی جنگ کے اسلحے ہیں۔
ایک لمحے کی خاموشی چھا گئی جیسے کسی نادیدہ حملے کا سایہ۔پھر استاد نے یووال نوح حراری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
’’اب جنگیں میدان میں نہیں، کلاؤڈ میں لڑی جائیں گی‘‘۔
یہ سن کر مجھے پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ شاید ہم اگلی جنگ کے ہتھیار تو ایجاد کر رہے ہیں، مگر ان کے خلاف اپنا ذہن، نظام اور سماج ابھی تیار نہیں کر پائے۔
استاد خاموش ہو گئے جیسے کوئی باب مکمل ہوا ہو۔
انہوں نے کافی کا آخری گھونٹ لیا اور آہستہ سے کہا:’’طاقت اب ہاتھوں میں نہیں، ذہنوں میں مرکوز ہے — جو سوچ کو قید کرے، وہی دنیا کو فتح کرے گا۔‘‘چاہے وہ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ہو، ایران اور اسرائیل کی محاذ آرائی، روس اور یوکرین کا طویل تنازع ہو — یا کسی مستقبل کی عالمی جنگ — جیت اب گولہ بارود سے نہیں، علم، ٹیکنالوجی، اور ڈیجیٹل برتری سے ہوگی۔ جو قومیں مصنوعی ذہانت، بائیوٹیک اور سائبر تحفظ میں سرمایہ کاری کریں گی، وہی اگلے معرکوں کی فاتح ہوں گی۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں