مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:173
محکمہ صحت سے متعلق بھی یہاں بہت بڑے کلینک اور اسپتال ہیں جن میں سب سے مشہور نام لیڈی ریڈنگ اور خیبر ٹیچنگ اسپتال کا ہے۔ حال ہی میں تعمیر کیے گئے کچھ نجی اسپتال، جن میں شوکت خانم کینسر اسپتال، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، نارتھ ویسٹ جنرل ہسپتال اور رحمٰن میڈیکل سینٹر بھی شامل ہیں، یہ اتنے اعلیٰ معیار کے طبی مراکز ہیں کہ یہاں غیر ملکی مریض خصوصاً افغانستان سے لوگ علاج کی غرض سے آتے رہتے ہیں۔
پشاور کے لوگ اچھے مگر مرغن کھانے کے شوقین ہیں اور سارے پاکستان اور دْنیابھر میں یہ اپنی مہمان نوازی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ سڑکوں کے ذریعے رابطہ ہونے کے وجہ سے دونوں اطراف میں شہریوں کاآناجانا لگا رہتا ہے۔
پشاور پہنچ کر پاکستان کی سب سے پرانی اور مرکزی ریلوے لائن ایم ایل1 کا 1687 کلومیٹر کاسفر جو کراچی سٹی اسٹیشن سے شروع ہو کر پشاور کینٹ اسٹیشن تک ہے، مکمل ہو جاتا ہے۔اس لیے ہم بھی اس طویل باب کو اب ختم کرکے ریل سے متعلق کچھ دوسرے موضوعات کی طرف جاتے ہیں۔
باب6
مرکزی لائن ایم ایل2کوٹری۔ اٹک
انگریز حکومت کے زمانے سے ہی کراچی سے صرف ایک مرکزی ریلوے لائن پشاور تک جاتی تھی جسے نئے نظام کے تحت اب ایم ایل 1 کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے تقسیم ہند کے دوران بٹوارہ کچھ اس طرح ہوا تھا کہ یہ ریلوے لائن کراچی سے وزیرآباد تک تقریباً ہندوستانی سرحد کے ساتھ ساتھ ہی چلتی گئی ہے۔ کچھ مقامات پر تو یہ سرحد کے اتنا قریب ہو جاتی ہے کہ وہاں سے محض چند کلومیٹر دور ہی ہندوستان واقع ہے۔ ویسے تو یہ شروع سے ہی ایک بڑا چیلنج تھا لیکن اس کا صحیح ادراک 1965ء کی جنگ کے دوران ہوا کہ دشمن کسی وقت بھی اندر گْھس کراس ریلوے لائن پر اپنا قبضہ کرکے ملک کے جنوبی حصے کو مکمل طور پردارالحکومت یعنی اسلام آباد اور شمالی علاقہ جات سے کاٹ سکتا تھا اور یوں وہ پاکستان کو قدموں پر گرا لیتا۔ سرحد قریب ہونے کے وجہ سے اس بات کا دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کسی وقت بھی وقت ہندوستانی جہاز سرحد کے قریب ہی واقع اپنے ہوائی اڈوں سے ایک مختصر سی اڑان بھرکے پاکستان میں داخل ہوتے اور باآسانی ریلوے کی پٹریوں اور دیگر تنصیبات کو نقصان پہنچا کر واپس چلے جاتے۔ 1965ء کے جنگ میں ایسا ہوا بھی تھا جب وزیرآباد کے قریب دھونکل کے اسٹیشن پر کھڑی ایک پاکستانی مسافر گاڑی پرفضائی حملہ کیا گیا جس میں کچھ لوگ شہید ہوگئے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ بعد ازاں پاکستان ایئر فورس کی چوکسی کی وجہ سے ان کو دوبارہ ایسا کرنے کے جرأت نہیں ہوئی۔ لیکن پھربھی اس ریلوے لائن پر چلنے والی فوجی گاڑیاں بھی محفوظ نہ تھیں۔ 1971ء کی جنگ میں دشمن کسی حد تک اندر تو گْھس آئے تھے لیکن ان کو دور ہی روک کر واپس بھگادیاگیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔