سب سے نیا

لنکس

 1876ء میں دریائے جہلم کا  پْل مکمل ہوا، یہ پاکستان میں بنائے جانیوالے تمام پلوں کے مقابلے میں طویل تھا،3 اور دریاؤں  پربھی پْل بنائے جانے تھے

2025-06-12     IDOPRESS

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:154


باب4


ایم ایل1 (دوسرا حصہ)لاہور۔پشاورلائن


جب سب بڑے شہروں کو آپس میں مربوط رکھنے کے لیے محکمہ ریلوے جا بجا سروے کر رہا تھا تو 1857ء میں لاہور سے پشاور تک ریلوے لائن بچھانے کے کام پر بھی غور و خوض شروع ہوا، تاہم کچھ سیاسی اور عسکری سوچ بچار اور دیگر پیچیدگیوں کے باعث اس کام میں قدرے تاخیر ہوتی چلی گئی۔اس کے علاوہ کچھ تکنیکی مشکلات بھی سامنے آگئی تھیں جن میں اٹک کے مقام پر دریائے سندھ عبور کرنے کے لیے ایک بڑے اور مشکل پْل کے علاوہ 3 اور دریاؤں یعنی جہلم، چناب اورراوی پربھی پْل بنائے جانے تھے۔ خطہ پوٹھوہار کے پہاڑی علاقوں میں ندی نالوں پر چھوٹے بڑے کئی پْل بنانے کے ساتھ ساتھ اْونچے نیچے راستوں کو ہمواررکھنے کی خاطر ریلوے کے مقرر کردہ گریڈئینٹ کے مطابق پٹریاں بچھانا تھا۔جس کے مطابق اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ایک حد تک لائن کی چڑھائی اور اترائی کو قائم رکھا جائے، اس لیے بعض جگہ پْل بنا کر اس کی سطح کو برقرار رکھا گیا، حالانکہ وہاں ندی، نالے یا دریا نہیں ہوتے تھے۔ اور جب زیادہ چڑھائی آجاتی ہے تو ریل کی پٹری کو دائرے کی شکل میں گھما پھرا کر اسے آہستہ آہستہ بلندی تک لیجایا جاتاہے۔ جہلم کے علاقے سوہاوا اور تَرکی میں پٹری بچھانے کے کام میں بھی اسی قسم کی تکنیکی دشواریاں نظر آ رہی تھیں۔لہٰذا یہاں اس لائن کو مرحلہ وار بلندی تک لے جانے کے لیے ایک دائرہ نما لوپ لائن بنانا ضروری تھا۔ یوں پہلے مرحلے میں لاہور سے جہلم اور پھر جہلم سے راولپنڈی اور آخر میں راولپنڈی سے پشاور تک اس پٹری کوپہنچانے کا منصوبہ بنایا گیا۔


اس لائن کی تعمیر کے دوران کئی مقامات پرمشکل مراحل بھی آئے، جہلم تک کا علاقہ تو میدانی تھا اس لیے یہاں بڑی تیزی سے کام ہوتا چلا گیا، راوی، چناب اور جہلم دریاؤں پر ریلوے پل بھی بغیر کسی بڑی رکاوٹ یا دقت کے وقت مقررہ پر تیار ہوتے گئے۔ساتھ ساتھ ریلوے اسٹیشن بھی بنتے گئے اور دوسری ضروری عمارتیں اور ریلوے ملازمین کی رہائش گاہیں بھی تعمیر ہوتی چلی گئیں۔


اس لائن پر سب سے پہلے یعنی1876ء میں دریائے جہلم کا پْل مکمل ہوا جو پاکستان میں بنائے جانے والے تمام پلوں کے مقابلے میں کافی طویل تھاکیونکہ منتخب کی گئی جگہ پر دریا کے پاٹ کی چوڑائی تقریباً 4 کلومیٹرتھی اور اس لیے یہ لمبا ئی کے لحاظ سے کسی بھی دریا پر پاکستان کا سب سے طویل ریلوے پْل قرار پایا۔


اسی لائن پرلاہوراور شاہدرہ کے بیچ 1876ء میں دریائے راوی پربھی ریلوے پْل کی تعمیر بھی مکمل ہوئی- پھراسی سال یعنی 1876ء میں ہی اس علاقے کے ایک اور بڑے دریائے چناب کا پْل بھی مکمل کر لیا گیا۔ یہ پْل گجرات اور وزیرآباد کے درمیان تعمیر ہوا تھا۔ یوں 5سال میں 3 بڑے دریاؤں پر پْل مکمل کر کے ریل کی پٹریاں بچھا دی گئیں۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap