سب سے نیا

لنکس

معروف ٹاک ٹاکر کھابے لامے کو امریکہ میں حراست میں کیوں لیا گیا؟

2025-06-11     HaiPress

واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن) دنیا بھر میں کورونا وبا کے دوران مشہور ہونے والے ٹک ٹاکر کھابے لامے کو امریکہ میں کچھ وقت کے لیے حراست میں لینے کے بعد رہا کردیا گیا۔


نجی ٹی وی جیو نیوز نےغیر ملکی میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ امریکہ کے ہیرے ریڈ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ٹک ٹاکر کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا۔


یہ واقعہ 6 جون کو پیش آیا جب اٹلی کے شہری 25 سالہ ٹک ٹاک اسٹار کھابے لامے لاس ویگاس پہنچے تو امریکی امیگریشن حکام نے ان کے ویزا کی مدت زائد المعیاد ہونے کی بنا انہیں حراست میں لیا۔


رپورٹس کے مطابق امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے بعد ازاں تصدیق کی کہ کھابے لامے نے ویزا کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے تاہم اسی روز انہیں رضاکارانہ واپسی کی اجازت دے کر چھوڑدیا گیا۔


آج کا مقبول ترین ٹک ٹاک سٹار 4 سال قبل کون تھا؟ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے کھابے لامے زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2 معمولی نوکریاں کرتے تھے، وہ ایک ریسٹورینٹ میں ویٹر کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے تھے جب کہ اسی دوران انہوں نے فیکٹری میں بھی ملازمت شروع کردی۔


کھابے لامے: ایک معمولی سا فیکٹری ملازم ‘سٹار’ کیسے بنا؟22 سالہ کھابے کی ماہانہ آمدن کی بات کی جائے تو وہ دن رات محنت کے بعد بھی صرف ایک ہزار ڈالر ماہانہ کما پاتے جو شاید بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھے۔


عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کے باعث انہیں اپنی دونوں نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔


ملازمتوں سے فارغ ہونے والے کھابے نے سوشل میڈیا پر انٹری ماری اور وہاں اپنی مزاحیہ ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کردیں، ان کی ویڈیوز بہت ہی سادہ ہوتیں جس میں وہ مشکل کاموں کو مزاحیہ انداز میں آسانی کے ساتھ کرتے دکھائی دیتے۔


ٹک ٹاک پر کھابے کی پہلی ویڈیو کو صرف 2 لوگوں نے دیکھا جس میں ایک ان کے والد اور دوسرا ان کا پڑوسی تھا، انہیں اپنی ویڈیوز پر ایک مہینے میں صرف 9 ویوز موصول ہوئے جب کہ وہ اتنی محنت کے بعد صرف 2 سبسکرائبرز ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن انہوں نے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کی اور اپنی محنت کو جاری و ساری رکھا۔


منفرد بات یہ ہے کہ وہ اپنی زیادہ تر ویڈیوز میں کبھی بولتے ہوئے دکھائی نہیں دیے، کھابے کی ویڈیوز جسمانی حرکات پر مشتمل ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود ہر زبان سے تعلق رکھنے والے افراد ان کی ویڈیوز کو سمجھ سکتے اور مسکرا سکتے تھے۔


آہستہ آہستہ لوگوں نے ان کے کام کو پسند کرنا شروع کیا اور ویڈیوز پر شیئرنگ کی تعداد بڑھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ان کے فالوورز کی لائن لگ گئی۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap