سب سے نیا

لنکس

 لاہور اسٹیشن اپنے اندر بہت سی اندوہناک کہانیاں سموئے ہوئے ہے، تقسیم ہند کے موقع پر فسادات میں شَر پسندوں نے اسٹیشن کو بری طرح نقصان پہنچایا

2025-06-09     IDOPRESS

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:151


لاہور اسٹیشن اپنے اندر بہت سی اندوہناک کہانیاں بھی سموئے ہوئے ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر جب لاہور میں فسادات پھوٹ پڑے تھے تو شَر پسندوں نے لاہور کے اسٹیشن کو بھی بہت بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ بعد ازاں جب تقسیم کا اعلان ہوا اور ہجرت کا عمل شروع ہو گیا تو شروع کے کچھ دنوں تک تو سکون رہا اور گاڑیاں حسب معمول نقل مکانی کرنے والوں کو ان کی نئی منزلوں تک پہنچاتی رہیں، پھراس عمل میں شدت پسندی اور تخریب کاری کا عنصر غالب آ گیا اور ہندوستان سے لاہور پہنچنے والی گاڑیاں چند زندہ لوگوں کے ہمراہ سیکڑوں لاشیں بھی ساتھ لے کر آتی تھیں جو نقل مکانی کے اس عمل میں ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت راستے میں ہی مار دیئے گئے تھے۔


فطری طور پر اس کا رد عمل تو ہونا ہی تھا، سو ہوا، مقامی مسلمانوں نے ایک حد تو یہ قتل و خون برداشت کیا لیکن پھران کیاعصاب بھی جواب دے گئے اور انھوں نے بھی اسی طرح ہندوستان جانے والی گاڑیوں کے مسافروں کا خون بہاناشروع کر دیا۔ کہتے ہیں جب ہندوستان، خصوصاً مشرقی پنجاب سے لاشوں اور زخمیوں سے بھری ہوئی گاڑی لاہور پہنچتی تھی تو دروازے کھولنے پر خون باہر پلیٹ فارم پر بھی بہہ نکلتا تھا۔ قائد اعظم بھی ہجرت زدہ لوگوں کی ایک ایسی ہی گاڑی دیکھنے کے لیے لاہور آئے تھے اور گاڑی کے ڈبے میں چڑھے تو وہاں لاشوں کے انبار دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ فوراً ہی نیچے اْتر آئے۔ ہندوستان کی ایسی خونی تقسیم کے بارے میں تو شاید انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔


ان خونی ہنگاموں میں لاہور اسٹیشن کا بھی بہت نقصان ہوا توڑ پھوڑ کے علاوہ اسے جلانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔غرض یہ وقت بھی گزر ہی گیا لیکن لاہور اسٹیشن کے جسم پر گہرے گھاؤ لگا گیا۔اب یہ باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اپنی آنکھوں سے یہ سارا خون خرابہ دیکھنے والے ایک ایک کرکے رخصت ہوئے اور جو زندہ ہیں وہ اس موضوع پر کلام ہی نہیں کرتے بس ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو تو اس خونریزی کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے دکھ کو سمجھ سکتے ہیں۔


آج کل کے لاہوراسٹیشن کی مرکزی عمارت کے بنیادی ڈھانچے میں تو کوئی خاص بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی، ہاں آہستہ آہستہ یہ جدیدیت کی طرف مائل ہوتا گیا اور اب بھی وہاں حسب ضرورت ایک تواتر کے ساتھ نئی تعمیرات ہوتی رہتی ہیں۔ ریلوے کا ہیڈ کوارٹر زہونے کے وجہ سے اسٹیشن کی عمارت میں بہت سارے دفاتر بھی قا ئم ہیں اور اب کمپیوٹروں اور خود کار آلات کیذریعیگاڑیوں کی آمد و رفت کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔پاکستان کا یہ ماۂ ناز اور خوبصورت اسٹیشن ایک بہت اہم اور انتہائی مصروف جنکشن بھی ہے جس کی وجہ سے یہاں سے بہت سی برانچ لائن گاڑیاں بن کر مختلف سمتوں میں روانہ ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ 24 گھنٹے چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے یہاں ہر وقت مسافروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap