سب سے نیا

لنکس

 کہتے ہیں انگریز بہت دور کی سوچتا ہے، پْلوں کی تعمیر کا کام جاری ہی تھاکہ ریل گاڑیوں کی بوگیوں اور اسٹیم انجنوں کو ہندوستان پہنچانا شروع کردیا

2025-06-06     HaiPress

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:148


انگریز سرکار کی یہ کوشش تھی کہ جتناجلد ممکن ہو ہندوستان کے تمام اہم علاقوں کو ریل کے ذریعے آپس میں منسلک کرکے وہاں فوجی چھاؤنیاں قائم کر دی جائیں جہاں بھاری تعداد میں ان کی فوجیں موجود رہیں۔ ہندوستان کے وسطی علاقوں میں دہلی کو صدر مقام اور مرکزی شہر کا درجہ دے کر فوج کی بھاری نفری کو وہاں متعین کر دیا گیا تھا۔ ویسے تو شمالی اور جنوبی ہندوستان کے سب بڑے شہروں میں فوجیں موجود تھیں لیکن وہ زیادہ تر تجارتی شہر تھے جیسے کہ بمبئی، کلکتہ، کراچی اور احمدآباد وغیرہ۔ کچھ علاقوں اور ریاستوں کو انگریز بڑے شاطرانہ انداز میں وہاں کے حکمرانوں کے ذریعے چلا رہے تھے وہ دھونس دھمکیوں یا لالچ کے ذریعے اس ریاست کے حکمرانوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے تھے لہٰذا اس طرف سے انھیں کسی قسم کی سرکشی کا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔اس سے پہلے اٹھارہویں صدی میں میسور میں ٹیپو سلطان کی طرف سے بغاوت اٹھی تھی جسے حکومت نے اپنے زَر خریدغلاموں اور غداران وطن کے ذریعے بڑی کامیابی سے دبا دیا تھا۔اب سارے وسطی اور مشرقی ہندوستان میں ریلویکا نظام مضبوط جڑیں پکڑ چکا تھا اور بڑی کامیابی سے چل رہا تھا۔ ساتھ ساتھ برانچ لائنوں کے ذریعے اس کو مزید پھیلایا جا رہا تھا، اب لے دے کے ان کے لیے زیادہ اہم علاقے کچھ وسطی اور جنوبی ہندوستان، ایران اور افغانستان کے ساتھ لگتے ہوئے شمال مغربی اور شمال کے رہ گئے تھے۔ اور اس طرف سے انھیں روس، افغانستان کی حکومت اور قبائلی علاقوں سے للکارا بھی جاتاتھا۔ ان کو قابو میں رکھنے کے لیے وسطی پنجاب کے لاہور، راولپنڈی اور کئی کئی دوسرے بڑے شہروں میں ریلوے اسٹیشن بلکہ جنکشن بنانے کے لیے چنا گیا۔


کہتے ہیں انگریز بہت دور کی سوچتا ہے، ابھی ریلوے کی پٹریوں، اور اسٹیشنوں کی عمارتوں اور پْلوں کی تعمیر کا کام جاری ہی تھاکہ محکمہ ریلوے نے ان پر دوڑانے کے لیے ریل گاڑیوں کی بوگیوں اور اسٹیم انجنوں کو ہندوستان پہنچانا شروع کردیا۔مرکزی ہندوستان کیلیے تو ریلوے کا یہ تعمیراتی سامان بمبئی، کلکتہ اور دوسری بندر گاہوں کے ذریعے براہ راست پہنچتا رہا لیکن سندھ، پنجاب اور سرحد میں چلائی جانے والی گاڑیوں کے انجن اور بوگیوں کو لاہور تک لانے کے لیے کراچی کی بندر گاہ کا انتخاب کیا گیا جو کہ قریب اورموزوں ترین راستہ تھا۔ لاہور امرتسر دہلی کا راستہ ابھی زیر تعمیر تھا لہٰذا وسطی ہندوستان یا وہاں کی کسی بھی بندر گاہ سے انجن اور بوگیوں کے علاوہ دوسرابھاری سامان لاہور پہنچانا ممکن نہیں تھا۔اس وقت موجودہ پاکستانی علاقے میں ریل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی کیفیت کچھ یوں تھی:


کیماڑی کی بندرگاہ یعنی کراچی سے کوٹری تک ریل کی پٹری مکمل طور پر بچھ چکی تھی اور اس پر باقائدگی سے مال اور مسافر گاڑیاں چل رہی تھیں۔ کوٹری کا پْل ابھی زیر تعمیر تھا- اس لیے یہ ریلوے لائن وہیں پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔


کوٹری کے بعد لاڑکانہ کے راستے سکھر تک ریل کی پٹری تکمیل کے قریب تھی مگر ابھی اسے کچھ اور وقت درکارتھا۔ ویسے بھی سکھر والے پْل کا ابھی دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔


دوسری طرف لاہور سے ملتان اور پھر ملتان سے روہڑی تک پٹریوں کی تعمیر کا کام ابھی تکمیل سے کچھ دور تھا۔ راستے میں دریائے ستلج پر ایک بڑا پْل بھی بنایا جانا تھا۔ کام بہر حال تیز رفتاری سے ہو رہا تھا لیکن ابھی کوٹری سے بذریعہ ریل گاڑی سیدھا لاہور آنا نا ممکن تھا۔


شمال کی طرف لاہور سے پشاور جانے والی پٹری بھی ابھی زیر تعمیر تھی، لیکن اگر وہ مکمل بھی ہو بھی جاتی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس کے ذریعے انجن یا ڈبے لاہور نہیں لائے جا سکتے تھے۔ان کو بہرحال وسطی ہندوستان یا کراچی کی بندر گاہ کے راستے ہی اس علاقے میں پہنچایا جا سکتاتھا۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap