مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:139
خانپور ایک بہت بڑا کاروباری مرکز بھی ہے، جہاں بارہ مہینے غلہ منڈیوں میں مختلف اجناس کی خریدو فروخت عروج پر رہتی ہے۔ یہ بہت ہی زرخیز علاقہ ہے، گنا، کپاس اور گندم وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔خانپور کے آس پاس کے علاقے میں ایک درجن سے زائد جانی پہچانی اور بڑی شوگر ملیں ہیں، جہاں ہزاروں ٹن شکر تیار ہوتی ہے۔
رحیم یار خان کی ایک تحصیل ہونے کے ناتے یہاں اس سطح کے تمام سرکاری دفاتر، ہسپتال، تعلیمی ادارے وغیرہ موجود ہیں، اس کے علاوہ یہ شہر تیزی سے ترقی کرتاہوا آگے بڑھ رہا ہے اور رفتہ رفتہ یہاں اونچے درجے کے تجارتی مراکز اور نجی تعلیمی ادارے وغیرہ بھی کھل رہے ہیں۔ پشاور سے کراچی جانے والی موٹر وے اس کے قریب سے ہی گزرتی ہے اس لیے اب اس شہر کا براہ راست رابطہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں سے ہو گیا ہے۔
ڈیرہ نواب صاحب اور احمد پور شرقیہ
ڈیرہ نواب صاحب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں بہاولپور کے نوابوں کے محلات ہیں۔ جن میں صادق گڑھ پیلس سب سے زیادہ خوبصورت اور مشہور ہے۔ یہ متحدہ ہندوستان کے چند اوّلین اسٹیشنوں میں سے ہے جسے بہاولپور کے نوابوں نے ذاتی طور پر اپنے استعمال کے لیے تعمیر کروایاتھا۔
یہ بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے۔ احمد پور شرقیہ ایک اور اسٹیشن ہے جو اس کے قریب ہی واقع ہے۔ یہ دونوں علاقے سیاحوں کے لیے بڑی کشش کا باعث ہیں۔ احمد پور شرقیہ سے ایک سڑک صحرائے چولستان میں واقع دراوڑ قلعہ تک جاتی ہے۔جہاں خوبصورت عباسیہ مسجد ہے جس کے پہلو میں بہاولپور کے تمام نوابوں کے علاوہ شہزادے، شہزادیوں اور ان کے اہل خانہ کا ذاتی قبرستان بھی موجود ہے، جس میں درجنوں کے حساب سے انتہائی خوبصورت مقبرے بنے ہوئے ہیں۔ یہیں ایک بڑے ہال میں اب تک گزرنے والے بہاولپور کے تمام نوابوں کی قبریں ایک ترتیب سے موجود ہیں، جن میں ایک ننھی سی قبر صاحبزادہ رحیم یار خان کی بھی ہے جو کم عمری میں ہی وفات پا گیا تھا، اور جس کے نام پر رحیم یار خان شہر کا نام رکھا گیا تھا۔نوابوں کے اس مدفن کے علاقے میں بے شمار چھوٹی بڑی قبریں ان کے خاندان اور ان سے تعلق رکھنے والے ان کے عزیز و اقارب کی بھی ہیں۔
صحرائے چولستان، جسے اس علاقے میں روہی بھی کہا جاتا ہے،سیکڑوں کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو ایک طرف تو آکر سندھ کے تھر ریگستان سے مل جاتا ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا سیکڑوں کلومیٹردور فورٹ عباس کے قریب ہندوستان کے علاقوں، بیکانیر اور جیسلمیرکی طرف نکل جاتا ہے۔
آج کل اس مقام کی افادیت اس لیے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ سال میں دو بار یہاں صحرائی جیپوں اور گاڑیوں کی ریلی ہوتی ہے جس کو دیکھنے کے لیے سارے پاکستان سے لوگ یہاں پہنچ کر اپنے خیمے گاڑ لیتے ہیں اور یہاں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ جنگل میں منگل عملی طور پر اسی کو کہتے ہیں۔ ڈیرہ نواب صاحب اور احمد پور شرقیہ کا علاقہ بہت زرخیز ہے اور یہاں قدم قدم پرکھجوروں اور آموں کے باغات نظر آتے ہیں۔
احمد پور شرقیہ ایک چھوٹا سا شہر ہونے کے علاوہ تحصیل ہیڈ کوارٹر بھی ہے،اس لیے یہاں اسی سطح کے سرکاری ادارے، دفاتر، طبی مراکز اور درسگاہیں موجود ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔