سب سے نیا

لنکس

وہ میٹھے سروں میں بات کرتا، بولتا جا رہا تھا، بھید کھولتا جا رہا تھا،اس کی بتائی باتیں بہت حد تک درست تھیں۔ اب باری باری سبھی اس کو ہاتھ دکھانے لگے

2025-05-13     IDOPRESS

مصنف:شہزاد احمد حمید


قسط:165


پیر مولوی؛


ہوسٹل میں حفیظ الرحمن راحت کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ وہ باریش اورشاندار انسان تھا۔ میٹھے سروں میں بات کرتا، سرائیکی جو تھا۔ میں نے شرارتاً اسے کہا”مولوی! تو مجھے پہنچا ہوا شرارتی مولوی لگتا ہے۔“ وہ قہقہا مار کر ہنسا؛”میں شرارتی توکم ہوں مگر دلوں کے بھید خوب جانتا ہوں۔ تمھارا ہاتھ دیکھ کر تمھاری قسمت بتا سکتا ہوں۔“ اس نے مجھے قریب بلایا اور لگا میرا ہاتھ دیکھنے۔وہ بولتا جا رہا تھا اور میرے بھید کھولتا جا رہا تھا۔ اس کی بتائی باتیں بہت حد تک درست تھیں۔ اب باری باری سبھی اس کو ہاتھ دکھانے لگے اور وہ کچھ سچ اور کچھ تکے لگاتا ماحول تجسس زدہ بناتا رہا۔ باتوں باتوں میں مشتاق نے بتایا؛”راحت! تعویز گنڈے کا دھندا بھی کرتا ہے۔ اس کے گھر پر ہی اس کا آستانہ تھا اور تعویز لینے والوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی تھی۔“وہ مرادانہ کمزوری کے لئے نسخے بتاتا اور تیار کرکے بھی دیتا تھا۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہر پاکستانی مرد کا پسندیدہ اور شاید سبھی خود کو اس بیماری میں مبتلا بھی سمجھتے ہیں۔ اس نے ہمیں بھی چند آزمودہ نسخے بتائے جو مجھ سمیت سب نے جوش وخروش سے نوٹ کئے تھے۔


لالہ موسیٰ میں میری ملاقات آصف بٹ(ڈسکہ کے رہنے والے یہ پاک پور سرامکس میں کیمیکل انجینئر تھے۔ شریف، بھلے مانس اور ہنس مکھ شخص۔) سے ادریس بھائی کی وساطت سے انہی کے گھر ہو ئی تھی اور چند دن میں ہی ان سے اچھی شناسائی ہو گئی۔میں نے راحت حفیظ کے حوالے سے ان سے بات کی تو وہ بھی اپنا ہاتھ دکھانے ہوسٹل چلے آئے۔راحت نے ان کا ہاتھ دیکھا اور بولا؛”میں آپ کی دوسری شادی دیکھ رہا ہوں۔“ آصف شادی شدہ تھے اور اپنی بیگم سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بات بیگم سے کی تو راحت کی بجائے وہ مجھ سے ناراض ہوئیں کہ آپ نے آصف کو راحت سے کیوں ملایا تھا؟ خیر مولوی کی شرارت نے خوش و خرم زندگی میں وقتی ہلچل پیدا کر دی تھی۔


یہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی چلتی رہیں، سنجیدہ تربیت بھی ہوتی رہی اور لوڈ شیڈنگ کا بھوت بھی یہاں کی شدید گرمی میں سر چڑ ھ کر بولتا رہا۔ اسی اونچ نیچ میں چار ہفتے بیت گئے اور اب وقت تھا فیلڈ attachment کا۔ مجھے دیہی ترقیاتی مرکز قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ جانا تھا اور اگلا ایک ہفتہ محمد اقبال شیخ کے ساتھ گزارنا تھا۔ یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے سنئیر کولیگز کی اکثریت زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تعلیم یافتہ تھی اور ان کی مہارت زراعت ہی کے مختلف شعبہ جات میں تھی۔ یہ لوگ 79 میں 2 مختلف محکموں کے اکٹھے ہونے(مرجر) سے بلدیات کے محکمے میں آئے تھے۔ ان کی اپنی سوچ اور اپنا نقطہ نظر تھا۔یہ بھی ایک کہانی تھی۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap