سب سے نیا

لنکس

 اسکے چہرے کا غصہ اور منہ سے پھوٹتی گالیاں بہت لطف دیتی ہیں، ہار ہار تھی، اسے حسب دستور بو تلیں پلانا پڑیں اس دور میں ٹھنڈی بوتل 2روپے کی تھی

2025-05-12     HaiPress

مصنف:شہزاد احمد حمید


قسط:164


فکس میچ؛


ایک روز ہم حسب معمول کرکٹ کھیل رہے تھے۔قاری اور ذوالفقار ٹیموں کے کپتان تھے۔ قاری کی ٹیم ہار رہی تھی۔ میں ذوالفقار کی ٹیم میں تھا۔ آخری اوور مجھے کرنا تھا جس میں باقی رن بننا ناممکن تھے۔ آخری اوور سے پہلے قاری میرے پاس آیا اور بولا؛”یار! زلفی کنجوس آدمی ہے۔ تم میچ اسے ہراؤ تو بوتلیں اسے پلانی پڑیں گی۔“ میں مان گیا یوں ہم دونوں نے بوتل پینے کی چکر میں میچ فکس کر دیا۔ یہ تاریخ کا شاید پہلا فکسڈ میچ تھا۔ذوالفقار کی ٹیم میچ ہار گئی۔ ذوالفقار مجھ سے بہت خفا ہوا کہ خراب باؤلنگ کرکے تو نے میچ ہروا دیا۔ خیر ہار ہار تھی اور اسے حسب دستور بو تلیں پلانا پڑی تھیں۔ اس دور میں ٹھنڈی بوتل 2روپے کی تھی۔ قاری بار بار بوتل پیتے کہہ رہاتھا؛”سائیں! بوتل دا سواد اج ڈھتا اے۔“وہ یہ فقرہ بولتا اور زلفی مجھے اور خفا ہوتا۔اسے آج یکمشت 30 روپے کا نقصان ہوا تھا۔ واپس جاتے زلفی کو میں نے بتایا؛ ”قاری اور میں نے ملی بھگت سے میچ فکس کرکے تجھے ہرایا تھا۔“ وہ مجھے سخت برا بھلا کہنے لگا اور بہت عرصہ ناراض ہی رہا۔ زلفی بہت اچھا دوست ہے لیکن آج بھی جب کبھی اس فکس میچ کا ذکر ہوتا ہے اس کے چہرے کا غصہ اور منہ سے پھوٹتی گالیاں بہت لطف دیتی ہیں۔ایک اور کنجوس کا ذکر بھی سنا دوں۔ یہ رانا نسیم تھا۔ ایک ویک اینڈ پر مجھے لاہور جبکہ قاری کو فیصل آباد جا نا تھا۔ آکیڈمی سے ہم تینوں اکٹھے نکلے۔ ہم دونوں نے پلان کیا ٹکٹ رانا خریدے گا۔ سازش کامیاب ہوئی اور ٹکٹ کے چھبیس(26) روپے اُسے ہی دینے پڑے تھے۔ اس دور میں لاہور کایک طرفہ کرایہ 10 روپے تھا۔ابھی تک اس نے یہ 26 روپے ہمارے ہی کھاتے میں لکھ رکھے ہیں۔


تیری انجینئر دی۔۔۔؛


دوران تربیت ممتاز عزیز( میرا سب انجینئر) میرے پاس آ یا اور ایک در خواست میرے آ گے رکھ کر کہنے لگا؛”سر! میری تجویز کی منظوری دے دیں۔ یہ درخواست زکوۃ فنڈز سے بنے والے کواٹرز کی دوسری قسط کے اجراء سے متعلق تھی۔ میں نے غلام محمد کو بلایا اور پوچھا؛”مجھے کیا کرنا ہے؟“ وہ ممتاز عزیز سے کہنے لگا؛”پہلی قسط کے ووچر کہاں ہیں۔ وہ چیک کرائیں پھر ہی قانون کے مطابق دوسری قسط جاری ہو گی۔“ ممتاز کو اس کا سوال پسند نہ آیا۔ غصے سے بولا؛”i am the engineer who are you “۔ غلام محمد نے پنجابی میں کہا؛”تیری انجینئر دی۔۔۔۔“ ممتاز مجھ سے مخاطب ہوا؛”سر! آپ قسط جاری کریں۔ کام رک جائے گا ہماری پراگرس نیچے آ جائے گی۔“ میں نے اسے کہا؛”proceed further as has been explanied by Ghulam Mohammad."۔وہ بڑ بڑ اتا چلا گیا۔ اس کے بعد اس کی انجینئرنگ ٹھیک ہو گئی تھی۔غلام محمد روز دوپہر کے بعد میرے پاس ہوسٹل چلا آتا اور ڈاک مارک کروا جاتا تھا۔ (جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
اوپر کی طرف واپس
جرنل آف کمپیوٹر سائنس      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap