مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:364
قریبی ڈاک بنگلہ، جو ایک وقت میں بڑا ہی افسانوی اور رومانوی سا مقام ہوا کرتا تھا، کب کا برباد ہو چکا ہے، عمارت گرا کر اینٹیں اکھاڑ لی گئیں، گھنے اور سایہ دار درخت کاٹ کر بیچ دیئے گئے تھے اور وہ کنواں، جہاں سے ہم ٹھنڈے ٹھار پانی کے ڈول نکال کر پیتے اور نہاتے تھے، مٹی سے بھر دیا گیا ہے، صرف اوپر لگی ہوئی سال خوردہ چوبی چرخی یہاں کبھی اس کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ نا جانے کتنی ہی خوبصورت یادیں تو صرف یہ ڈاک بنگلہ ہی اپنے اندر سمیٹ کر وقت کی دھول میں غائب ہو گیا تھا۔دل کے کسی کونے میں ایک حسرت سی اٹھتی ہے کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔
دادا کے لگائے ہوئے آموں کے درخت ان ہی کی طرح اپنی طبعی عمر پوری کر کے کب کے گل سڑ کے جھڑ گئے تھے، ایک بوڑھا آم ابھی تک کھڑا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بانجھ ہو گیا ہے، پھل نہیں دیتا اور اس کے پتے بھی جھڑ گئے ہیں صرف سوکھی سڑی شاخوں کا ایک ڈھانچہ سا سر سبز کھیتوں میں تنہا کھڑا ہے جس کو بھی غالباً اسی لیے برداشت کر لیا گیا ہے کہ یہ بزرگوں کی آخری نشانی ہے۔ نئی نسل کی تو کوئی بھی یادیں اس درخت سے وابستہ نہیں ہیں، وہ تو شاید پاس سے گزرتے ہوئے اس پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کرتے ہوں، لیکن ہمارے پاس تو اس کی ایک پوری تاریخ رقم ہے، اتنی آسانی سے یہ سب کچھ کیسے بھول جاتے۔ وہاں پہنچتے ہی خود بخود ہمارے قدم رک جاتے ہیں توتب یہ بوڑھا شجر ہم سے گھنٹوں باتیں کیاکرتا ہے، ہمیں گئے وقتوں کے قصے سناتا ہے، ہمارے ساتھ ہنستا ہے اور نجانے ہمارے کتنے ہی رازوں کا امین ہے۔ کسی دن جب یہ بالکل ہی سوکھ جائے گا تو یہ بھی طرح ایندھن کے لیے کٹ گرے گا۔
اس وقت تو یہ بہت جوان ہوتا تھا اور ہمارا مسکن تھا۔ کچی امبیوں کے موسم میں ہم ڈھیر سارا پسا ہوا نمک جیبوں میں بھر کے ساتھ لے جاتے اور پھر ساری دوپہر اس کے سائے تلے یا اس کی شاخوں پر بیٹھے کچے آم اس وقت تک کچر کچر کھاتے رہتے تھے جب تک پیٹ میں درد نہ شروع ہو جاتا یا کھٹاس کی وجہ سے دانت حساس نہ ہو جاتے۔ اس وقت ہم وہاں سے اتر آتے اور بُرے بُرے منہ بنا کر گھر والوں کی ہمدردیاں سمیٹنے گاؤں کی طرف چل پڑتے۔
اس تحریر کے چند ہی برس بعد بدقسمتی سے ایک دن یہ بوڑھا درخت شدید آندھی کا جھکڑ برداشت نہ کر سکا اور زمیں بوس ہوا لیکن پھر لوگوں مے ایک معجزہ دیکھا کہ ٹھیک اس کی جگہ ایک اور درخت پھوٹ آیا تھا۔گویا جاتے جاتے بھی وہ اپنی ذمہ داری کسی اور کو سونپ گیا تھا۔
گاؤں کے مرکزی چوک میں ٹھنڈے پانی کا کنواں تھا جہاں ہر وقت گاؤں کی مٹیاریں پانی بھرا کرتی تھیں اور آپس میں اٹھکیلیاں کیا کرتی تھیں۔ جبکہ اس دوران لڑکے کسی نہ کسی بہانے آس پاس ہی منڈلایا کرتے تھے۔ یہ کہنا فضول ہے کہ ان لڑکوں میں کئی دفعہ میں خود بھی شامل ہوتا تھا۔ گاؤں کا یہ رومانوی گوشہ بھی بربادی سے بچ نہ سکا۔ اس کنویں کو بھی سارے گاؤں کا کوڑا کرکٹ پھینک کر بند کر دیا گیا ہے، اب اس کے ارد گرد پانی کی بیسیوں موٹریں لگا دی گئی ہیں جو براہ راست گھروں کو پائپوں کے ذریعے پانی فراہم کرتی ہیں۔ پانی کے گھڑے اٹھا کر جاتی ہوئی لڑکیوں کی قطاریں اب وہاں نظر نہیں آتی ہیں۔ یوں پنجاب کی تہذیب کا ایک بہت ہی حسین باب بھی بند ہو گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔